” اگر کسی کو اچھا باپ نہیں ملا تو اس کو چاہیے ایک اچھا باپ بنا لے”
 نطشے 

سگمنڈ فرائڈ نے تحلیل نفسی……

(Psychoanalysis)

   کی بنیاد ماں باپ کے ساتھ تعلقات پر استوار کی  – فرائڈ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح قدیم یونانی افکار بتدریج اپنی اشکال تبدیل کر کے موجودہ شکل میں موجود ہیں –  فرائڈ نے نفسیاتی بیماریوں کو زندگی کے آغاز میں کہیں نہ کہیں ماں ‘باپ کے ساتھ تعلق سے ہی جوڑا ہے-یہ بات بھی قابل بحث ہے کہ فرائڈ کے نظریات کہیں صلیبی افکار میں فادر’ مدر اور پاکیزہ روح کو حاصل مقام کا تنقیدی جائزہ تو نہیں؟؟؟  فرائڈ کے افکار سے یہ اچھی طرح اخذ کیا جا سکتا ہے کہ روزمرہ کے معمولات جیسا کہ طنز و مزاح میں ماں باپ سے رائج باتیں کس طرف اشارہ کرتی ہیں – اور کس طرح ان باتوں سے لاشعوری طور پر ذہنی سکون حاصل کیا جاتا ہے….  انہیں افکار کو زبان اور دیگر  معاملات میں رائج کرتے ہوئے ” ژاں لاکان ” نے  ” فرڈینیڈ ڈی سیور”  جس کو  لینگویسٹکس اور (معانی ‘ مطالب اور حوالہ دینا والا) جیسے افکار  کا بانی کہا جاتا ہے’ کے افکار کی مدد سے مزید تحلیل نفسی کی وضاحت کی ہے….. سیور کے مطابق الفاظ کے مطالب صوابدیدی ہوتے ہیں… اور یہ مختلف معاشروں میں’ کلچرل اور زبان کی نوعیت سے بدلتے رہتے ہیں  جیسا کہ فادر لینڈ ‘مادر لینڈ گاڈ فادر مادر علمی  فادر فگر  …….لاکان کے لیے جو قوانین اور پابندیاں ہماری خواہشات کو روکتی ہیں اور جو مل ملاپ کے طور طریقے کی وضاحت کرتی ہیں وہ ہمیشہ ایک باپ کی شخصیت اختیار کر جاتی ہیں – لہذا فوق انا (سپر ایگو) ماورا خودی’ عضو مخصوصہ ‘ماں کے ساتھ انس ‘ باپ کے ساتھ نفرت کی بنیاد  لاشعوری طور پر معاشرتی طور طریقوں کی وضاحت کرتی ہے….. مزید یہ کہ  باپ کی غیر موجودگی میں صرف اور صرف افرا تفری ہے….. زبان میں افراتفری ہے’ روابط کے طریقہ کاروں میں افراتفری مزید ‘نظریاتی معاشرتی افکار کو سمجھنے میں افراتفری ہوگی….. لہذا باپ  کی غیر موجودگی میں کوئی رابطہ نہیں اور نہ ہی کوئی زبان قائم ہوسکتی ہے…… ” تمام خواہشات کی بنیاد یہ ہے کہ “باپ “بنا جاۓ” لاکان  دیگر معاشروں پر گرفت نہ ہونے کی وجہ سے ان پر اظہار نہیں کیا جاسکتا….. لیکن وجودیت ‘ نفسی زندگی کو یکجا کرتے ہوئے اسلامی افکار اور تعلیمات وحدانیت کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہیں – علامات اور علامتی تعلقات کی اسلامی افکار میں نفی ہے… اور ہمیشہ خیالات سے حقیقت کی طرف نشاندہی کی جاتی ہے…  لہذا اسلامی فلسفے میں کبھی بھی علاماتی تعلقات کو حقیقت مان لینا توحید سے روگردانی ہوگی…. لہذا جینیاتی عمل یا ہارمونل ایکٹیویٹی ایک سائنس ہوسکتی ہے….. مگر باقی حقیقت میں وہ نہ کسی کا باپ اور نہ ہی اس کا کوئی بیٹا ہے اور بے شک اس کا کوئی ہمسر نہیں…. جاری ہے——–

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *