شاید ہمارے دیہاتی بیک گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے 25 سال سے ہم اکٹھے ہیں  یا ہماری شخصیات کے متضاد پہلوؤں نے ہمیں اکٹھا رکھا ہوا ہے – مزید یہ کہ ہم میں کچھ حرکات بھی مشترک ہیں  مثال کے طور پر جیسا کہ راجو کو اپنے والد کی پگ عزیز ہے اور ہمیں اپنے والد کی سیاسی پارٹی.

مش اور دیگر دوستوں کا یہ مشترکہ فیصلہ ہے کہ  راجو سے بحث نہیں کرنی جو وہ کہتا ہے ٹھیک کہتا ہے اور اس کی بات کو ہر گز نہیں ٹوکنا- اکثر و بیشتر راجو ٹھیک ہی کہتا ہے – لیکن ہم بھی اپنی عادت سے مجبور ہیں کبھی کبھی چھیڑ دیتے ہیں اور نوبت ہاتھا پائی تک جا  پہنچتی ہے-  بیشتر بار گاڑی سے باہر بھی نکالا گیا ہے – راجو نے اور ہم  نے  بے شمار بار پکا پکا عہد کیا ہے کہ اب دوبارہ دوستی  نہیں ہوگی لیکن لگتا ہے کہ دونوں عادت سے مجبور ہیں – راجو کی زبانی ۔۔۔۔ کہ دادا جان نے ایک بار کہا کہ پوٹھوہار  میں ہر چار بچوں  میں ایک فوجی ہوتا ہے ‘ ایک وکیل ہوتا ہےاور  ایک زمیندار پیدا ہوتا ہے-  دادا جی کے چپ  ہونے  راجو نے داد جان سے کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔ ”چوتھا کی ہوندا اے”  دادا جان جواب دیتا کہ  “پتر او تیرے نالوں عاشق حسین ہوندا اے”- راجو ایک حقیقی عاشق ہیں اور عشق کے تمام رموز سے واقف بھی ہے  اور کہتے ہیں  کہ ان کی بچپن کی وحشت  کوعشق نے ہی ختم کیا ہے -ہمیں بھی معرفت کی جتنی باتیں آتی ہیں وہ ساری باتیں راجو کے ہی مرہونِ منت ہیں- راجو محبت میں شدت پسند تھا -لیکن  آج کل ہماری حالت دیکھ کر راجو کبھی کبھار کہہ دیتا ہے کہ کسی انسان کی اوقات سے زیادہ اس سے محبت نہیں کرنی چا ئیے –  لیکن راجو کے مطابق  محبت کی دنیا میں ہم شاپر ہیں –

گوجر خان کے سارے فقیر اور مسکین راجو سے عشق کرتے ہیں – ایک دو بار اپنے ذاتی مال مویشی بیچ کر بھی لوگوں کی بیٹیوں کی شادی کروائی ہے اور گھر والوں سے مار بھی کھائی ہے – شاہد  آزاد کشمیر کے دو فقیر اور مسکین بھی راجو سے پیار کرتے ہیں   ‘ لیکن ہمارا پیارا راجو کی نظر میں مطلبی ہے اور ڈپلومیٹک ہے – راجو کے پیار میں اگر مگر نہیں ہےاور نہ ہی وہ ہمیں  اگر مگر کرنے دیتے ہیں- مش راجو کو ایک ولی سمجھتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ راجو کے جلال کے اکثر اسپییلز  چلتے ہیں اور اکثر یہ لمبے بھی ہوجاتے ہیں اور مش کی بھی کئی بار ان اسپیلز میں شامت آئی ہے – راجو کی مالی مشکلات میں پورا نہیں تو آدھا حصہ میرا ضرور ہے- میرا پکا ماہنامہ 7500 کا وظیفہ تھا  اور دھمکی بھی دی گئی ہے اگر یہ مضمون لکھا تو وظیفہ کبھی نہیں ملے گا- لیکن دوستی کی سلور جوبلی اور راجو کی 33 سالگرہ کے موقعے پر فرض بنتا ہے کہ کچھ لکھا جا ئے –  اکثر و بیشتر راجو کو ہر چیز کا پہلے ہی پتہ ہوتا ہے اور ان کا حافظہ بھی کافی شاندار ہے راجو کے مطابق ٹو ڈیٹ اور منافقانہ پالیسی ہم میں رچی بسی ہے – چنار سے لے کر ابھی تک ہم اسی پالیسی پر براجمان ہیں – ہم ناجائز طور پر سکول میں ٹیچرز کے چہیتے تھے  – تیسری چوتھی کلاس میں  اپنی باری پر اخبار کا بل نہ دینا بھی راجو کو یاد ہے- رشید صاحب کی وفات میں ہمارا ہاتھ شامل ہے  اور مش کی بھی غلطی شامل ہے- 

لیکن راجو ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں ہمیں برائی سے بچانے میں 80 فیصد انہیں کا ہاتھ ہے  اور شاید خراب کرنے میں 20 فیصد بھی راجو کا ہاتھ ہے – بے بی ڈولز سے راجو کی وجہ سے دور ہیں  لیکن پکے شاپر ہیں- راجو ہر ایک کا غم خوار ہے اپنی فیملی کے ایک بزرگ کی خدمت کرتے دیکھ کر مش کی بات کا یقین ہوگیا تھا کہ اگر ولی نہیں تو نہیں  واقعی ولایت کے قریب ہیں(  اگر غصہ نہ کریں  اور زبان سے ہمارے لیے مغالطے کم کر دیں) چلیں جلال بھی ولایت کا حصہ ہے -آسٹریلیا کی زندگی بڑی پرسرا ر  ہے –پرکہا جاتا ہے کہ  پکی توبہ بھی ادھی ولایت ہے-فلسفے کے علاوہ  تاریخ اور جغرافیے پر مکمل عبور حاصل ہے   اکثر بحث جیتنے کے لیے گوگل کی مدد لی مگر پشیمانی ہی ہوئی  – راجو کو شکایت ہے کہ تیری جگہ کسی اور(اور میں مختلف قسم کے جانور شامل ہیں) کو پال لیتا تو بہتر تھا-لیکن اکثر و بیشتر راجو کو یہ بھی کہتے سنا گیا ہے کہ  تم نہ ہوتے تو میں بھی نہ ہوتا –

اس مضمون کے  تمام جملہ حقوق مصنف کے پاس محفوظ ہیں 

One Reply to “راجو”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *